تحریر: بنت فاطمه
حوزہ نیوز ایجنسی| اہلیت علیہ السّلام سے محبت رکھنے والی ہر خاتون دعا گو ہوتی ہے کہ اللہ ہمیں سیرتِ سیدہ سلام اللہ علیہا پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے، لیکن کیا سیرتِ سیدہ سلام اللہ علیہا ہر ملک اور ہر علاقے میں قابلِ عمل ہے۔۔۔۔!؟
ہر ملک ہر علاقے کا ایک کلچر ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ معاشرتی تقاضے ہوتے ہیں ہمارے کچھ فیملی سسٹمز ہیں ایک خاتون بیاہ کر عام طور پہ سسرال جاتی ہے اور اسے شوہر کے ساتھ ساتھ اور دوسرے رشتوں کو بھی نبھانا ہوتا ہے ہمارے والدین، نانا نانی، دادا دادی اور ساس سسر جنھوں نے بہت محنت اور خلوص کے ساتھ ان رشتوں کو نبھایا تھا اور صبر ایثار قربانی کی مثالیں قائم کی تھی انھوں نے جیسے اپنے والدین کو کرتے دیکھا جیسی تربیت پائی اس پہ عمل کیا اس زمانے میں دینی مدارس اور دینی علوم کا حصول اتنا آسان نہ تھا جو دینی اور خاندانی رسومات چلی آرہی تھی انھیں پورے خلوص کے ساتھ انجام دیا جاتا تھا اس میں کچھ اچھائیاں بھی تھی اور کچھ غلطیاں بھی ۔۔۔۔۔
جیسے جیسے وقت گزرا دینی مدارس کے قیام عمل میں آئے دین کے صحیح احکامات پہنچنے شروع ہوئے تو خواتین و حضرات میں حقوق و فرائض کی بحث شروع ہوگئی خصوصاً خواتین کے درمیان یہ نعرہ بلند ہوا کہ گھر کے کام کاج ہم پہ واجب نہیں ۔ساس سسر کی دیکھ بھال ہم پہ واجب نہیں ،الگ گھر میں دہنا ہمارا حق ہے ۔
ایسی صورت میں ہمارے والدین اور ساس سسر نے جو خدمات انجام دیں کیا وہ مکمل غلط تھیں ....۔!؟
کیا والدین کو جھوڑ کر الگ رہنا بہو کا حق ہے.….!؟
کیا ایک دین دار عورت پہ جسے اپنے حقوق معلوم ہیں اس پہ گھر داری ساس سسر کی خدمت فرض نہیں....!؟ کیا سیرتِ سیدہ سلام اللہ علیہا یہی ہے.....!؟
ان تمام باتوں سے ہم اپنی نسل کو کیا سبق دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔!؟
کیا ہمارے والدین پہ ہندوستانی کلچر کے جو اثرات ہیں ان سے مکمل اختلاف کر نا چاہیے۔۔۔۔۔!؟
کیا کسی قوم پہ کسی کلچر کے اثرات کو یکسر تبدیل کیا جا سکتا ہے..........!؟
کیا کوئی درمیانی راہ ہے جو سیرتِ سیدہ سلام اللہ علیہا کے عین مطابق ہو اور ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا باعث بھی ہو۔۔۔۔۔۔۔!؟
کیا ان معاملات کو ایک دین دار گھرانے اور دینی معلومات رکھنے والی خاتون بہتر انداز سے انجام دے سکتی ہے۔۔۔۔!؟
کیا ان سوالات کے جوابات اب بھی جاننا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔۔!؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔